دہشت گردی کے عوامل اور ان کا سد باب
متبادل عنوانات: ۱۔ عصر حاضر کا سنگین ترین مسئلہ دہشت گردی ۲۔ دہشت گردی کے اسباب اور ان کا حل
دہشت گردی ایک جنون ہے جو عصر حاضر میں ایک ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے اپنے مقصد کے حصول کے لیے غارت گری کا راستہ اختیار کرنا چاہے اس میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اپنی جانوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں۔ جس مقصد کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا تا ہے وہ صحیح یا غلط ہو سکتا ہے مگر اس کے حصول کا راستہ انتہائی گمراہ کن ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ کہلا تا ہے اور اس کے بے شمار فائدے ہیں ۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں، معیار زندگی بلند ہو گیا ہے اور دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے فتنے بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے ، خوف و دہشت کے سارے طویل ہوتے جار ہے ہیں اور غارت گری کے نئے نئے آلات ایجاد ہو رہے ہیں۔ ایسے میں دہشت گردی نہ صرف معصوم اور بے قصور افراد کے سروں پر لکھنے والی خوف کی ایک تلوار کی صورت اختیار گئی ہے بلکہ اس کی غارت گری کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔ یہی نہیں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کے مکمل خاتمے کے سلسلے میں ہے بس دکھائی دیتی ہیں۔۔ انفرادی سطح پر تو دہشت گردی ایک نفر بانی مسئلہ ہے اور اس کے اظہار بھی کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ اس کے حل کے لیے بھی نفسیاتی اور اخلاقی طریقے ہی اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ چونکہ یہ اتفاقی امر ہے۔ اس لیے اسے ظاہر ہونے پر ہی اس سے بچنے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے سے بے روز گاری ، جبر و استحصال، احساس محرومی اور مالیری کے نات کے ذریعے بھی اس کی راہیں مسدود کی جاسکتی ہیں اوگوری ملی استرام آدمیت اور انسان دوستی کا شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
اجتماعی دہشت گر دی دو طرح کی ہے ، ایک تو کسی گروہ یا جماعت کا باقاعدہ دہشت گردی کے حوالے سے افراد کی تربیت کرنا ان کے ذہنوں میں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے اس کے جواز بلکہ فریے تے کا یقین پیدا کرنا اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔ دوسرے کسی حکومت یا ریاست کا ایک جماعت، گروہ یا قوم کے افراد پر انصاف کے تمام تقاضوں کو بالاست طاق رکھتے ہوۓ ظلم و ستم روار کھنا، انھیں ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم رکھنا اور ان بنیادی حقوق کے حصول کی جد و جہد کو ریاستی یا حکومتی ذرائع سے سرکشی بلکہ غداری قرار دیا۔ اسے ریاستی دہشت گر دی کہتے ہیں۔ آج کل کشمیر، فلسطین اورچیچنیا و غیره میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے اور حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں دہشت گردی کا سب سے بڑا محرک انہیں علاقوں میں ہو نے والا ظلم و ستم ہے۔ ان علاقوں کے مظلوم اور بے بس افراد کے جائز اور بنیادی حقوق کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے، اس پر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی ایک مجرمانہ غفلت ہے ۔ اگر ہمیں اس دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ کرتا ہے تو ہمیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر احساس محروی اور مایو سی کا خاتمہ کرنا پورے لوگوں کو ان کے جائز حقوق دینے ہوں گے۔ ملکی اور بین الا قوای سلح پر انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوانے ہوں گے۔ بین الا قوامی سطح پر سفارتی اخلاقی اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے ریاستی دہشت گردی میں ملوث ممالک کے خلاف متحد ہونا ہو گا۔ انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے اور انہیں احساس محرومی کا شکار بنانے کی بجائے انہیں مساری حقوق دینے ہوں سے بھی ہم عصر حاضر کے اس بدترین ناسور کو دنیا سے نکال سکیں گے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ اور دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ورنہ اس کا تدارک تر در کنارا سے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور دہشت گردی ایک ایها اثر ما بن جائے گی جو جلد بابے پر سارے عالم کو مٹرپ کر جاۓ گا۔ دہشت گردی کے عوامل اور ان کا سد باب متبادل عنوانات : ۱۔ عصر حاضر کا سنگین ترین مسئلہ دہشت گردی ۲۔ دہشت گردی کے اسباب اور ان کا حل دہشت گردی ایک جنون ہے جو عصر حاضر میں ایک نامور کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے اپنے مقصد کے حصول کے لیے غارت گری کا راستہ اختیار کرنا چاہے اس میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اپنی جانوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں ۔ جس مقصد کے لیے ہے طریقہ اختیار کیا جا تا ہے وہ صحیح یا غلط ہو سکتا ہے مگر اس کے حصول کا راستہ انتہائی گمراہ کن ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ کہلا تا ہے اور اس کے بے شمار فائدے ہیں ۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں ، معیار زندگی بلند ہو گیا ہے اور دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے فتنے بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے ، خوف و دہشت کے سارے طویل ہوتے جار ہے ہیں اور غارت گری کے نئے نئے آلات ایجاد ہو رہے ہیں ۔ ایسے میں دہشت گردی نہ صرف معصوم اور بے قصور افراد کے سروں پر لکھنے والی خوف کی ایک تلوار کی صورت اختیار گئی ہے بلکہ اس کی غارت گری کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔ یہی نہیں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کے مکمل خاتمے کے سلسلے میں ہے بس دکھائی دیتی ہیں ۔انفرادی سطح پر تو دہشت گردی ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور اس کے اظہار بھی کبھی کبھار ہی ہوتا ہے ۔ اس کے حل کے لیے بھی نفسیاتی اور اخلاقی طریقے ہی اختیار کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ چونکہ یہ اتفاقی امر ہے ۔ اس لیے اسے ظاہر ہونے پر ہی اس سے بچنے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ معاشرے سے بے روز گاری ، جبر و استحصال ، احساس محرومی اور مالیری کے نات کے ذریعے بھی اس کی راہیں مسدود کی جاسکتی ہیں اور انسان دوستی کا شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے ۔ اجتماعی دہشت گر دی دو طرح کی ہے ، ایک تو کسی گروہ یا جماعت کا باقاعدہ دہشت گردی کے حوالے سے افراد کی تربیت کرنا ان کے ذہنوں میں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے اس کے جواز بلکہ فریقین کا یقین پیدا کرنا اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ۔ دوسرے کسی حکومت یا ریاست کا ایک جماعت ، گروہ یا قوم کے افراد پر انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوۓ ظلم و ستم روار کھنا ، انھیں ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم رکھنا اور ان بنیادی حقوق کے حصول کی جد و جہد کو ریاستی یا حکومتی ذرائع سے سرکشی بلکہ غداری قرار دیا ۔ اسے ریاستی دہشت گر دی کہتے ہیں ۔ آج کل کشمیر ، فلسطین اور چیچنیا و غیره میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے اور حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں دہشت گردی کا سب سے بڑا محرک انہیں علاقوں میں ہو نے والا ظلم و ستم ہے ۔ ان علاقوں کے مظلوم اور بے بس افراد کے جائز اور بنیادی حقوق کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے ، اس پر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی ایک مجرمانہ غفلت ہے ۔
اگر ہمیں اس دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ کرتا ہے تو ہمیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر احساس محروی اور مایو کی کا خاتمہ کرنا پور گا لوگوں کو ان کے جائز حقوق دینے ہوں گے ۔ ملکی اور بین الا قوای سلح پر انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوانے ہوں گے ۔ بین الا قوامی سطح پر سفارتی اخلاقی اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے ریاستی دہشت گردی میں طوٹ ممالک کے خلاف متحد ہونا ہو گا ۔ انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے اور انہیں احساس محرومی کا شکار بنانے کی بجائے انہیں مساری حقوق دینے ہوں سے بھی ہم عصر حاضر کے اس بدترین ناسور کو دنیا سے نکال سکیں گے ۔ اس کے لیے اقوام متحدہ اور دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ورنہ اس کا تدارک تر در کنارا سے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور دہشت گردی ایک ایسا اژدہا بن جائے گی جو جلد یا بدیر سارے عالم کو ہٹرپ کر جاۓ گا ۔
0 Comments:
Post a Comment