2nd Year Urdu Notes (Essay) The Causes of Terrorism
دہشت گردی کے عوامل اور ان کا سد باب
متبادل عنوانات: ۱۔ عصر حاضر کا سنگین ترین مسئلہ دہشت گردی ۲۔ دہشت گردی کے اسباب اور ان کا حل
دہشت گردی ایک جنون ہے جو عصر حاضر میں ایک ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے اپنے مقصد کے حصول کے لیے غارت گری کا راستہ اختیار کرنا چاہے اس میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اپنی جانوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں۔ جس مقصد کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا تا ہے وہ صحیح یا غلط ہو سکتا ہے مگر اس کے حصول کا راستہ انتہائی گمراہ کن ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ کہلا تا ہے اور اس کے بے شمار فائدے ہیں ۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں، معیار زندگی بلند ہو گیا ہے اور دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے فتنے بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے ، خوف و دہشت کے سارے طویل ہوتے جار ہے ہیں اور غارت گری کے نئے نئے آلات ایجاد ہو رہے ہیں۔ ایسے میں دہشت گردی نہ صرف معصوم اور بے قصور افراد کے سروں پر لکھنے والی خوف کی ایک تلوار کی صورت اختیار گئی ہے بلکہ اس کی غارت گری کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔ یہی نہیں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کے مکمل خاتمے کے سلسلے میں ہے بس دکھائی دیتی ہیں۔۔ انفرادی سطح پر تو دہشت گردی ایک نفر بانی مسئلہ ہے اور اس کے اظہار بھی کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ اس کے حل کے لیے بھی نفسیاتی اور اخلاقی طریقے ہی اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ چونکہ یہ اتفاقی امر ہے۔ اس لیے اسے ظاہر ہونے پر ہی اس سے بچنے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے سے بے روز گاری ، جبر و استحصال، احساس محرومی اور مالیری کے نات کے ذریعے بھی اس کی راہیں مسدود کی جاسکتی ہیں اوگوری ملی استرام آدمیت اور انسان دوستی کا شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
اجتماعی دہشت گر دی دو طرح کی ہے ، ایک تو کسی گروہ یا جماعت کا باقاعدہ دہشت گردی کے حوالے سے افراد کی تربیت کرنا ان کے ذہنوں میں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے اس کے جواز بلکہ فریے تے کا یقین پیدا کرنا اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔ دوسرے کسی حکومت یا ریاست کا ایک جماعت، گروہ یا قوم کے افراد پر انصاف کے تمام تقاضوں کو بالاست طاق رکھتے ہوۓ ظلم و ستم روار کھنا، انھیں ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم رکھنا اور ان بنیادی حقوق کے حصول کی جد و جہد کو ریاستی یا حکومتی ذرائع سے سرکشی بلکہ غداری قرار دیا۔ اسے ریاستی دہشت گر دی کہتے ہیں۔ آج کل کشمیر، فلسطین اورچیچنیا و غیره میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے اور حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں دہشت گردی کا سب سے بڑا محرک انہیں علاقوں میں ہو نے والا ظلم و ستم ہے۔ ان علاقوں کے مظلوم اور بے بس افراد کے جائز اور بنیادی حقوق کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے، اس پر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی ایک مجرمانہ غفلت ہے ۔ اگر ہمیں اس دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ کرتا ہے تو ہمیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر احساس محروی اور مایو سی کا خاتمہ کرنا پورے لوگوں کو ان کے جائز حقوق دینے ہوں گے۔ ملکی اور بین الا قوای سلح پر انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوانے ہوں گے۔ بین الا قوامی سطح پر سفارتی اخلاقی اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے ریاستی دہشت گردی میں ملوث ممالک کے خلاف متحد ہونا ہو گا۔ انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے اور انہیں احساس محرومی کا شکار بنانے کی بجائے انہیں مساری حقوق دینے ہوں سے بھی ہم عصر حاضر کے اس بدترین ناسور کو دنیا سے نکال سکیں گے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ اور دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ورنہ اس کا تدارک تر در کنارا سے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور دہشت گردی ایک ایها اثر ما بن جائے گی جو جلد بابے پر سارے عالم کو مٹرپ کر جاۓ گا۔ دہشت گردی کے عوامل اور ان کا سد باب متبادل عنوانات : ۱۔ عصر حاضر کا سنگین ترین مسئلہ دہشت گردی ۲۔ دہشت گردی کے اسباب اور ان کا حل دہشت گردی ایک جنون ہے جو عصر حاضر میں ایک نامور کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے اپنے مقصد کے حصول کے لیے غارت گری کا راستہ اختیار کرنا چاہے اس میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اپنی جانوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں ۔ جس مقصد کے لیے ہے طریقہ اختیار کیا جا تا ہے وہ صحیح یا غلط ہو سکتا ہے مگر اس کے حصول کا راستہ انتہائی گمراہ کن ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ کہلا تا ہے اور اس کے بے شمار فائدے ہیں ۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں ، معیار زندگی بلند ہو گیا ہے اور دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے فتنے بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے ، خوف و دہشت کے سارے طویل ہوتے جار ہے ہیں اور غارت گری کے نئے نئے آلات ایجاد ہو رہے ہیں ۔ ایسے میں دہشت گردی نہ صرف معصوم اور بے قصور افراد کے سروں پر لکھنے والی خوف کی ایک تلوار کی صورت اختیار گئی ہے بلکہ اس کی غارت گری کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔ یہی نہیں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کے مکمل خاتمے کے سلسلے میں ہے بس دکھائی دیتی ہیں ۔انفرادی سطح پر تو دہشت گردی ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور اس کے اظہار بھی کبھی کبھار ہی ہوتا ہے ۔ اس کے حل کے لیے بھی نفسیاتی اور اخلاقی طریقے ہی اختیار کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ چونکہ یہ اتفاقی امر ہے ۔ اس لیے اسے ظاہر ہونے پر ہی اس سے بچنے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ معاشرے سے بے روز گاری ، جبر و استحصال ، احساس محرومی اور مالیری کے نات کے ذریعے بھی اس کی راہیں مسدود کی جاسکتی ہیں اور انسان دوستی کا شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے ۔ اجتماعی دہشت گر دی دو طرح کی ہے ، ایک تو کسی گروہ یا جماعت کا باقاعدہ دہشت گردی کے حوالے سے افراد کی تربیت کرنا ان کے ذہنوں میں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے اس کے جواز بلکہ فریقین کا یقین پیدا کرنا اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ۔ دوسرے کسی حکومت یا ریاست کا ایک جماعت ، گروہ یا قوم کے افراد پر انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوۓ ظلم و ستم روار کھنا ، انھیں ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم رکھنا اور ان بنیادی حقوق کے حصول کی جد و جہد کو ریاستی یا حکومتی ذرائع سے سرکشی بلکہ غداری قرار دیا ۔ اسے ریاستی دہشت گر دی کہتے ہیں ۔ آج کل کشمیر ، فلسطین اور چیچنیا و غیره میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے اور حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں دہشت گردی کا سب سے بڑا محرک انہیں علاقوں میں ہو نے والا ظلم و ستم ہے ۔ ان علاقوں کے مظلوم اور بے بس افراد کے جائز اور بنیادی حقوق کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے ، اس پر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی ایک مجرمانہ غفلت ہے ۔
اگر ہمیں اس دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ کرتا ہے تو ہمیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر احساس محروی اور مایو کی کا خاتمہ کرنا پور گا لوگوں کو ان کے جائز حقوق دینے ہوں گے ۔ ملکی اور بین الا قوای سلح پر انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوانے ہوں گے ۔ بین الا قوامی سطح پر سفارتی اخلاقی اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے ریاستی دہشت گردی میں طوٹ ممالک کے خلاف متحد ہونا ہو گا ۔ انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے اور انہیں احساس محرومی کا شکار بنانے کی بجائے انہیں مساری حقوق دینے ہوں سے بھی ہم عصر حاضر کے اس بدترین ناسور کو دنیا سے نکال سکیں گے ۔ اس کے لیے اقوام متحدہ اور دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ورنہ اس کا تدارک تر در کنارا سے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور دہشت گردی ایک ایسا اژدہا بن جائے گی جو جلد یا بدیر سارے عالم کو ہٹرپ کر جاۓ گا ۔
Essay: Ideology of Pakistan (Urdu)
نظریہ پاکستان
متبادل عنوانات ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ ۔ ۔۔۔۔۔پاکستان، اسلام کا قلعہ ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کیو ں بنا؟ ۔ ۔۔۔۔۔تحریک پاکستان
نظریہ ، ۔ اس میں، کسی فرد یا قوم کا طرز فکر ، زاویہ نظر ، ضابطہ حیات اور نظام زندگی وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ کسی قوم کے لئے نظریے کی حیثیت روح کی سی ہے۔ اگر ایک قوم کسی نظریہ کے بغیر زندگی بسر کر رہی ہو تو اس کی زندگی کسی ولولے ، جذبے اور حرکت و حرارت سے خالی ہو گی کیونکہ نظریہ یا مقصد ہی زندگی میں امنگ ، ولولہ اور جوش پیدا کر تا ہے اور اس اعتبار سے وہ ایک زبردست قوت محرکہ ہے۔ بے مقصد زندگی کے باقی اور بر قرار رہنے کے امکانات بھی بہت کم ہںو۔ علامہ اقبال کے بقول: قو مںگ فکر سے محروم ہو کر تباہ ہو جاتی ہں ۔“ نظریہ پاکستان “ سے مراد وہ نظر یہ ، وہ فکر اور وہ آئڈایالوجی ہے جس پر پاکستان کی بناید رکھی گئی اور وہ ہے اسلام جو جداگانہ قومتا کا نظریہ اور مسلمانوں کے علحد ہ اور ثقافتی وجود کی اساس ہے۔ قائد اعظم کے خاتل مںد پاکستان کی بنارد اس روز رکھ دی گئی جس روز ہندوستان مںت پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ شخص کلمہ طبہ پڑھ کرہی ایمان لایا اور مسلمان ہوا تھا۔ اس اعتبار سے کلمہ طیبہ ہی پاکستان کی بنیا د ہے۔ نظریہ پاکستان متبادل عنوانات : ا ۔ پاکستان کا مطلب کاہ لا الہ الاللہ ۔ پاکستان ، اسلام کا قلعہ پاکستان کوپں بنا ؟ تحریک پاکستان نظریہ ، ۔ اس مں کسی فرد یا قوم کا طرز فکر ، زاویہ نظر ، ضابطہ حاوت اور نظام زندگی وغر ہ سبھی شامل ہںج ۔ کسی قوم کے لئے نظریے کی حتلم روح کی سی ہے ۔ اگر ایک قوم کسی آئڈلیالوجی کے بغرک زندگی بسر کر رہی ہو تو اس کی زندگی کسی ولولے ، جذبے اور حرکت و حرارت سے خالی ہو گی کولنکہ نظریہ یا مقصد ہی زندگی مںا امنگ ، ولولہ اور جوش پد ا کر تا ہے اور اس اعتبار سے وہ ایک زبردست قوت محرکہ ہے ۔ بے مقصد زندگی کے باقی اور بر قرار رہنے کے امکانات بھی بہت کم ہںہ ۔ علامہ اقبال کے بقول : قو مںو فکر سے محروم ہو کر تباہ ہو جاتی ہںو ۔ “نظریہ پاکستان “ سے مراد وہ نظر یہ ، وہ فکر اور وہ آئڈجیالوجی ہے جس پر پاکستان کی بنااد رکھی گئی اور وہ ہے اسلام جو جداگانہ قومتم کا نظریہ اور مسلمانوں کے علحدمہ اور ثقافتی وجود کی اساس ہے ۔
قائد اعظم کے خاال مںپ پاکستان کی بناہد اس روز رکھ دی گئی جس روز ہندوستان مںن پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ شخص کلمہ طبہی پڑھ کرہی ایمان لایا اور مسلمان ہوا تھا ۔ اس اعتبار سے کلمہ طبہن ہی پاکستان کی بنارد ہے ۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی مںن ناکائی کے اور مں اور مںک اپنی غلا گار ہے پارر کی اور نگری کے احساسا مںا شہد ہونے لگے اور ان کے اندر حصول آزادی کا منہ پہ نشو و نما پا لے گا۔ آزادی کے راستے مںر انگریزولی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا طرز عمل بھی بہت بڑی رکاوٹ تھا۔ ۱۹۰۲ء مںی مسلمانوں کے لےا حقوق کے حصول اور تحفظ کی خاطر مسلم لگن قائم کی ۔ ہند و توام که عاارانه طرز عمل سے مسلمانوں کے اندر یہ احساسی نام ہو پایا کہ اگر انگریز بہاتے وقت ہندوستان کی حکومت ہندوؤں کے سپر د کھرے گئے تو اکثریت کے بل بوتے پر ہند و مستقبل کے منکر ان ہو ان کے اور بند دراج مںے مسلمانوں کی حتدر شو داروں کی کی ہو گی۔ چنانچہ مختلف لوگوں کی طرف سے ایک علحدپہ مسلم ریاست کے تصورات پشب کے جانے لگے۔ تی کہ ۱۹۳۰ مگر علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد نے واضح طور پر اعلان کای۔ ہندوستان کی سا سی زندگی نے ایک نہایت نالہ کی صورت اختاکر کرلی ہے ۔ اسلام پر ابتلاد آزمائش کا ایسا سخت وقت کبھی نہں آیا جساا کہ آج در پشو ہے۔ مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان مںگ ایک اسلامی مملکت قائم کی ساسست ، بالکل حق بجانب ہے۔ مریی خواہش ہے کہ پنجاب صوبہ ر لہ سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست مںو ملا دیا جائے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہںہ کہ اسلام بحتدوس ایک تندی قوت کے زندہ ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصو مںر علاقے مں اپنی مرکزیت قائم کر سکے۔ مںم صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہود کے خاکل سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہو لاے۔“ اس اعلان کو ’’ تصور پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ یین تصور اور ییل نظریہ ، تحریک پاکستان کی بناحد بنا اور اللہ تعالی کی تائدی و نصرت سے قائد اعظم نے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ ۱۹۴۰ء مں۔ لاہور کے منٹو پارکی (اب اقبال پارک) مںے منعقدہ ایک تارییر جلسہ عام مںح شیر بنگال مولوی اے کے فضل ستی نے قا م پاکستان سے ملا لنےح پر مبنی ایک قرار داد پشن کی جو بعد میں ” قرار داد پاکستان“ کے نام سے معروف ہوئی۔ یین تارییت قرار داد حصول پاکستان کی بناند بنی۔ اقبال پارک مںک منالر پاکستان اسی تاریی چلے اور قرار داد پاکستان کی یاد گاری علامت ہے ۔۔ قرار داد پاکستان کی شکل مں مسلمانوں نے ہندوستان کے اندر ایک الگ اسلامی مملکت کا باقاعدہ مطالبہ پشا کاپ۔ حصول پاکستان کے تلے ساےسی جد وجہد کا آغاز ہوا اور بہت جلد ہندوستان کے طول و عرض مں : پاکستان کا مطلب کاف۔ ا الہ الا للہ کا نعرہ کو سنے لگا ۔ ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پٹن کاح، گھر بار لٹ نے اعزہ واقربا سے جد اہو سے وطن سے ہجرت کی۔ آخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ایک نئی مسلمان ممیت دناز سے بے پر ابھر کی یہ تاریخ کا ایک عظمع الشان پاکستان کلمہ طبہت کی بنامد پر وجود مںا آیا تھا۔ مسلمانوں نے سار کا قرباناآں اسلامی نظریے کی خاطر دی تھںم۔ قائد اعظم نے کئی بار مطالبہ پاکستان کے محرکات کا جو وضاحت کی، جب پاکستان معرض وجودش آیا تو انہوں نے متعد و موقع پر اسکی وضاحت بھی کی مراا ایمانتا ہے کہ امام کا شاسته ای اسوہ حسنہ پر ہے جو مںے قانونی است ہے جو کرنے والے پغمبر اسلام سنہ ہمںس چاہےپ کہ ہم اپنی جمہوریت کی باادد کے ماورای اسلامی تصورات والواوان رکھںک ۔ (۱۲ فرور ۰۱۹۴۷) پر ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی مں ناکائی کے اور مںس اور مںح اپنی غلا گا ہے پا ر کی اور نگری کے احساسا مںب شہدن ہونے لگے اور ان کے اندر حصول آزادی کا منہ پہ نشو و نما پا لے گا ۔ آزادی کے راستے مںم انگریزولی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا طرز عمل بھی بہت بڑی رکاوٹ تھا ۔ ۱۹۰۲ ء مںا مسلمانوں کے لےہ حقوق کے حصول اور تحفظ کی خاطر مسلم لگپ قائم کی ۔ ہند و توام که عا۵رانه طرز عمل سے مسلمانوں کے اندر یہ احساسی نام ہو پایا کہ اگر انگریز بہاتے وقت ہندوستان کی حکومت ہندوؤں کے سپر د کھرے گئے تو اکثریت کے بل بوتے پر ہند و مستقبل کے منکر ان ہو ان کے اور بند دراج مں۵ مسلمانوں کی حت ا شو داروں کی کی ہو گی ۔ چنانچہ مختلف لوگوں کی طرف سے ایک علحدںہ مسلم ریاست کے تصورات پشت کے جانے لگے ۔ تی کہ ۱۹۳۰ مگر علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد نے واضح طور پر اعلان کا ۔ ہندوستان کی ساوسی زندگی نے ایک نہایت نالہ کی صورت اختا ر کرلی ہے ۔ اسلام پر ابتلاد آزمائش کا ایسا سخت وقت کبھی نہں آیا جساآ کہ آج در پش ہے ۔
مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان مںز ایک اسلامی مملکت قائم کی سا ست ، بالکل حق بجانب ہے ۔ مرےی خواہش ہے کہ پنجاب صوبہ ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست مںے ملا دیا جائے ۔ اگر ہم یہ چاہتے ہںم کہ اسلام بحتوست ایک تندی قوت کے زندہ ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصو مںم علاقے مں اپنی مرکزیت قائم کر سکے ۔ مںد صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہود کے خاال سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہو لات ۔ “ اس اعلان کو تصور پاکستان کا نام دیا جاتا ہے ۔ ییو تصور اور ییت نظریہ ، تحریک پاکستان کی بنا د بنا اور اللہ تعالی کی تائد و نصرت سے قائد اعظم نے اس تحریک کو پروان چڑھایا ۔ ۱۹۴۰ ء مں“ لاہور کے منٹو پارکی ( اب اقبال پارک ) مںو منعقدہ ایک تارییں جلسہ عام مںم شر بنگال مولوی اے کے فضل حق نے قالم پاکستان سے ملا لنے پر مبنی ایک قرار داد پش کی جو بعد مں ” قرار داد پاکستان “ کے نام سے معروف ہوئی ۔ ییت تارییھ قرار داد حصول پاکستان کی بناسد بنی ۔ اقبال پارک مںض منامر پاکستان اسی تاریی جلسے اور قرار داد پاکستان کی یاد گاری علامت ہے ۔۔ قرار داد پاکستان کی شکل مں مسلمانوں نے ہندوستان کے اندر ایک الگ اسلامی مملکت کا باقاعدہ مطالبہ پشا کام ۔ حصول پاکستان کے تلے سا سی جد وجہد کا آغاز ہوا اور بہت جلد ہندوستان کے طول و عرض مںی : پاکستان کا مطلب کاے ۔ ا الہ الا للہ کا نعرہ کو سنے لگا ۔ ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پشر کاو ، گھر بار لٹائے اعزہ واقربا سے جد اہو ئے وطن سے ہجرت کی ۔ آخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو ایک نئی مسلمان ممتکا دنای میں ابھری یہ تاریخ کا ایک عظمم الشان واقع تھا۔ پاکستان کلمہ طبہ کی بناند پر وجود مںن آیا تھا ۔ مسلمانوں نے ساری قرباناآں اسلامی نظریے کی خاطر دی تھںم ۔ قائد اعظم نے کئی بار مطالبہ پاکستان کے محرکات کا جو وضاحت کی ، جب پاکستان معرض وجودمیں آیا تو انہوں نے متعد و موقع پر اسکی وضاحت بھی کی مرما ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پرچلنے میں ہے جو ہںال قانون عطا کرنے والے پغمبرو اسلام نے دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنادد کے ماورای اسلامی تصورات والواوان رکھںی ۔ ( ۱۲ فرور ۰۱۹۴۷ ) اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بناشدی سر چشمہ ہے۔“ (۱۲۴ سمبر ۱۹۴۷ء) ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمند کا ٹکٹر احاصل کرنے کے لئے نہںو کال تھا بلکہ ہم ایک ایی۹ تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکںش۔“ (۳۱جنوری ۱۹۴۸ء) ” مں ان لوگوں کی بات نہںر سمجھ سکتا جو یہ دانستہ اور شرارت سے پروپگنڈ ا کرتے رہتے ہںہ کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بناڈد پر نہںپ بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول ، عام زندگی مںس آج بھی اسی طرح قابل اطلاق مںی جس طرح ترکہ سو سال پہلے تھے۔“ (۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء) خود غرض اور مفاد پرست راہ نما اور طالع آزما ساسست دان ذاتی فائدوں کے نشے مںا مد ہوش ہو کر قومی اور ملی تو تصوں ست شامل ہو گئے۔۔۔ ہوس اور لاچی نے انھںس اندھا کر دیا۔ انہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا اور جمہوری نہ کی مٹی پلدے کی جس کا اہم ناک انجام یہ ہوا کہ ملک کا ایک حصہ کٹ کر علحد ہ ہو اور سقوط مشرقی پاکستان جسا درد ناک سانحہ پش۔ آیا۔ اہل پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ نصف صدی کا سفر طے کر لنے کے بعد نظریہ پاکستان کی مختلف مادی ، معاشی اراضی اور وطنی توصا ت پشل کی جانے لگی ہںن تا کہ قاآم پاکستان کے اصل مقاصد کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں مں شکوک و شبہات پدرا کئے چاسکںہ لکنم حققتی یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبے کی بنا د کلمہ طبہی پر تھی۔ محض زمنا کے مخصوص لکھنے سے محبت کی خاطر انتی ۔ بڑی تحریک نہںر چلائی گئی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ خود غرض ساقست دانوں نے قاام پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈالی دیا۔ اوار سے سنتے تو لا۔قت علی خان کا یہ قول ایک تنبہق ہے: ” اگر ہم نے پاکستان مںا اسلامی نظام قائم نہ کا تو ملک تباہ ہو جاے گا۔ * اہل پاکستان کے لئے بہترین لائحہ عمل نہںو ہے کہ وہ نظر یہ پاکستان کی مشعل کو نہ صرف روشد ہ تھں ، بلکہ اس کی او کو اور تز کر کاا اور پوری استقامت اور حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہںک ۔ اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بناردی سر چشمہ ہے ۔ “ ( ۱۲۴ سمبر ۱۹۴۷ ء ) ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمنا کا ٹکٹر احاصل کرنے کے لئے نہںس کاک تھا بلکہ ہم ایک اییم تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکںک ۔ “ ( ۳۱ جنوری ۱۹۴۸ ء ) ” مںت ان لوگوں کی بات نہںد سمجھ سکتا جو یہ دانستہ اور شرارت سے پروپگنڈہا کرتے رہتے ہںہ کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بناچد پر نہںد بنایا جائے گا ۔ اسلام کے اصول ، عام زندگی مں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق مںہ جس طرح ترسہ سو سال پہلے تھے ۔ “ ( ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ ء ) خود غرض اور مفاد پرست راہ نما اور طالع آزما ساوست دان ذاتی فائدوں کے نشے مں۔ مد ہوش ہو کر قومی اور ملی تو تصوں ست شامل ہو گئے ۔۔۔ ہوس اور لالچ نے انھیں اندھا کر دیا ۔ انہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا اور جمہوریت کی مٹی پلید کی جس کا المناک انجام یہ ہوا کہ ملک کا ایک حصہ کٹ کر علحد ہ ہو اور سقوط مشرقی پاکستان جیسا درد ناک سانحہ پیش آیا ۔ اہل پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ نصف صدی کا سفر طے کر لنےن کے بعد نظریہ پاکستان کی مختلف مادی ، معاشی اراضی اور وطنی توصایت پشر کی جانے لگی ہںک تا کہ قا۱م پاکستان کے اصل مقاصد کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں مںا شکوک و شبہات پدپا کئے چاسکںا لکنک حققتع یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبے کی بناتد کلمہ طبہی پر تھی ۔ محض زمنر کے مخصوص لکھنے سے محبت کی خاطر انتی ۔ بڑی تحریک نہںت چلائی گئی تھی ۔ اصل بات یہ ہے کہ خود غرض ساہست دانوں نے قاںم پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈالی دیا ۔ اوار سے سنتے تو لا قت علی خان کا یہ قول ایک تنبہ ہے : ” اگر ہم نے پاکستان مںچ اسلامی نظام قائم نہ کاد تو ملک تباہ ہو جاے گا ۔
اہل پاکستان کے لئے بہترین لائحہ عمل یہی ہے کہ وہ نظر یہ پاکستان کی مشعل کو نہ صرف روشنہ رکھیں ، بلکہ پوری استقامت اور حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ر ہیں ۔
مل کے بیٹھے نہیں، خوابوں میں شراکت نہیں کی
Download Class Notes Latest & Updated for Free